ستمبر 05, 2022

Urdu ki tareekh

 Urdu ki history

Urdu ki tarikh

اردوزبان کا  آغاز اور تعارف

ردو لفظ ترک زبان کے لفظ “اوردو “سے ماخوذ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں ۔اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں لوگوں کے مختلف نظریات ہیں، یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ لیکن ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک یہ ہے کہ اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد بعد ہوئی ہے۔ اوربنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد
اور مقامی لوگوںسے تعلقات اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔


The word Urdu is derived from the Turkish word "ordu" which means an army or an army. People have different ideas about the origin of Urdu, these ideas are contradictory to such an extent that a person would be confused. Is. But one thing common in these popular theories is that the origin of Urdu is based on the arrival of the Muslim conquerors in the Indian subcontinent. And the main argument is that the Urdu language started with the arrival of the Muslim conquerors in India and the relationship with the local people and the impact and impact on the local language.


اُردو  زبان 

اردو کی تاریخ

ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اردو زبان کا بیج کہاں بویا گیا، لیکن اردو کی ابتدا کے بارے میں ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس وقت وجود میں آئی جب فارسی کو مغربی ہندی میں پیوند کر دیا گیا۔
اور اس طرح ایک نئی زبان وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ بعض ماہرینِ لسانیات نے اردو کی ابتداء کو قدیم آریائیوں کے زمانے سے ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ اگرچہ اردو زبان کے محققین اس بات پر
متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی، لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج میں کافی فرق ہے

مغربی ہندی سے مراد دہلی اور میرٹھ کے علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ محمود غزنوی کے دور میں لاہور اور ملتان میں ایک ہی زبان رائج تھی تو یہ ماننا پڑے گا کہ اردو کی ابتدا اسی خطہ میں ہوئی۔


۔ اس وقت کے امراء او۔ تیرہویں، چودھویں اور پندرہویں صدی کا دور اردو زبان کی تشکیل کا دور ہے۔ اس وقت کے امراء اور عمائدینِ سلطنت نے اردو کو منہ نہیں لگایا۔ ممکن ہے یہ لوگ گھر میں یہ زبان بولتے ہوں لیکن ان کی تحریروں اور کاموں کی زبان ایک مدت تک فارسی ہی رہی۔ یہ تصوف اور بھگتی کے عروج کا زمانہ بھی ہے۔۔ اسی دور کی اردو کی میں ہندی الفاظ زیادہ استعمال ہوتے تھے ، عربی اور فارسی کے الفاظ کم استعمال کیےجاتے تھے۔ فارسی اور عربی کی مذہبی اور صوفیانہ اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں مگر شعراء ہندی اور سنسکرت کے خالص الفاظ اور عارفانہ اصطلاحیں بھی بڑی بےتکلفی سے لکھ جاتے تھے۔




اردوزبان کی خصوصیات

اردو زبان کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہندی، فارسی اور عربی کی تمام آوازیں موجود ہیں۔ اردو کے حروف تہجی ان تینوں زبانوں کے حروف تہجی سے بنے ہیں۔ . تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اردو زبان دوسری زبانوں کے الفاظ اور محاورات کو اپنانے کی بڑی صلاحیت رکھتی ہے۔ . چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اردو کا رسم الخط شروع سے فارسی ہے۔

ردو زبان کی ترویج و ترقی میں چھاپے خانوں  (پریس)اور اخباروں ، رسائلِ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اردو کے چھاپے خانے پہلے پہل اس کے بعد 1831 میں کانپور میں اور دوسرا لکھنؤ میں 1837 میں ایک پریس کھولا گیا، اس کے بعد ملک کے بڑے شہروں بشمول دہلی، بمبئی، حیدرآباد، دکن اور لاہور میں پرنٹنگ ہاؤس کھولے گئے اور اردو کتابیں شائع ہونے لگیں۔ کثرت میں شائع ہوا.

 1849 میں پنجاب میں پہلی بار اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ پوری دنیا میں خالص اردو بولنے والوں کی تعداد 11 کروڑ سے زیادہ ہے۔


urdu language

اردو کے حروف تہجی

اردو کے حروف تہجی

حروف تہجی سے مراد وہ علامتیں ہیں جو زبان لکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اردو زبان کے حروف تہجی 36 اور آوازیں سینتالیس ہیں۔ مثال کے طور پر نون گھنا (س) نون کی شکل ہے اور 'ہ' اور 'ہ' ایک ہی حرف ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اردو میں کل حروف کی تعداد 52 ہے۔ ان میں سے جو حرف شک کا شکار ہے وہ حمزہ ہے جس کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ اردو میں حرف نہیں ہے بلکہ علامت ہے اور اکثر صرف اضافہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ آتا ہے۔ مثال کے طور پر: "اردو سرمایہ، الفاظ کا مجموعہ، تحفہ اخلاص" وغیرہ۔


اردو زبان کی اہمیت :

پاکستان کی قومی زبان اردو ہے ۔

ہندوستان کی چھ ریاستوں میں اردو دفتری زبان کے طور پر رائج ہے ۔ انڈیا کے قانون میں اردو کا ان بائیس زبانوں میں استعمال ہوتا ہے جن کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً آٹھ فیصداور بھارت کی آبادی کے تقریباً پانچ فیصدولوگ اردو کو مادری زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔اردوزبان کو

عروج تک پہنچانے میں شاعروں ادبیوں اور انگریزوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ دنیا میں خالص اردو بولنے والوں کی تعداد گیارہ کروڑ ہے جس کے لحاظ سے اردو دنیا کی9ویں بین الاقوامی زبان ہے ۔




اردوکی افادیت کا اس سے اندازہ اس سےلگا سکتےہیں
ہیں کہ ہندی آج تک ہندوستان میں عام لوگوں کی زبان نہیں بن سکی ہے ۔ ہندی کے زیادہ تر الفاظ تو ہندیبولنے والوں کی سمجھ میں بھی نہیں آتے ۔

بھارت کی فلم انڈسٹری دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اس میں زیادہ تر فلمیں اردو میں ہی بنتی ہیں ۔
اردو میں کی جاتی ہے ۔فلموں کے مکالمے اور گیت سب اردو زبان میں ہی ہوتے ہیں۔ مکالموں میں تو ہندی کے کچھ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں لیکن گانوں اور غزلوں میں سو فیصد اردو زبان ہی استعمال کی جاتی ہے

urdu language history
اردو کی تاریخ  و ارتقاء



دُنیا کی دس بڑی زبانیں ' جس میں چینی زبان، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد اُردو دُنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے۔ اِسے دُنیا کی کل آبادی کا 4.7 فیصد افراد بولتے ہیں۔

پاکستان میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان کوئی اور ہے لیکن وہ اُردو کو بولتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں طویل مدت گزارنے والے پچاس لاکھ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اُردو روانی سے بول سکتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ تمام اُردو بولنے والے کہلائیں گے۔ اس حقیقت کے پیش نظر 2007ء میں سید ندیم احمد نے اردو قوم کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریہ کے تحت ہر وہ شخص اردو قوم کا حصہ ہے جو اردو سمجھتا، بولتا اور اسے اپنی مادری یا رابطے کی پہلی زبان سمجھتا ہے، خواہ اس کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ اس نظرئے کے مطابق اردو قوم کی تعداد ساری دنیا میں 30 کروڑ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ پاکستان میں اُردو اخباروں اور رسالوں کی ایک بڑی تعداد چھپتی ہے، جن میں روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ ملّت شامل ہیں،اخبار جہاں وغیرہ


پاکستان میں اردو :

اردو زبان کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے ۔ ۔اردو پاکستان کے سب اداروں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ بھی لیے ہوۓ ہے ۔

پرائمری
سے لے کر اعلی ثانوی جماعتوں تک اردو لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے .
زبان و ادب ، دفتر ، عدالت ، اور دینی مدارس ،اسکول ،کالج ہر جگہ اردوزبان کا استعمال کیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔


اردو بین الاقوامی زبان ہے ۔ یہ دنیا کے تمام ممالک عرب ریاستوں کے ساتھ ساتھ بر طانیہ ،امریکہ، بنگلہ دیش ،
، کینیڈا جر منی اور آسٹر یلیا میں بھی بولی اور سمجھی
جاتی ہے ۔۔
اردو پاکستان کی قومی زبان تو ہے لیکن یہ دفتری زبان نہیں ہے۔۔۔پاکستان کے سرکاری اداروں میں ابھی تک انگریزی زبان استعمال ہوتی ہے ۔۔۔۔

آج امریکہ ، جرمنی ، جاپان اور فرانس جو کہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں کیونکہ انھوں نے اپنی اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلم اور سرکاری زبان کے طور پر فروغ دیا۔۔۔

اردوزبان پاکستان ترقی کی ضامن:

انگریزی زبان ترقی کی ضامن نہیں ہے ترقی تو اپنی زبان میں رہ کر بھی کی جاسکتی ہے ۔ایک اور مثال اعظیم ملک چین کی ہے جنہوں نے اپنی چینی زبان پر بھروسہ کر کے دنیا کو دیکھا دیا ہے ۔ چینی صدر کے سامنے جب انگریزی زبان میں سپاس

نامہ پیش کیا گیا تو انھوں نے جواب میں ایسا جملہ کہا
جو کہ ضرب المثل کی حیثیت حاصل کر گیا۔
"انھوں نے کہا کہ چین ابھی گونگا نہیں ہوا"

پاکستان 1973 کے آئین کے تحت شق نمبر 251 کے مطابق اردو کو دفتری زبان بنانے کا اعلان ہوا لیکن عمل نہ ہوا پھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 8 ستمبر 2015ء کو سرکاری دفاتر میں اردو کو بطور سرکاری زبان کے نافذ کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا : “ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہو گی ۔”
لیکن
بدقسمتی سے اردو کو عملی طور پر سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا۔ہم آج تک انگریزوں کے بنائے ہوئے نظام تعلیم کو اپنائے ہوئے ہیں جس سے کلرک تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن رہنما پیدا نہیں کیے جا سکتے ۔ انگریزوں نے ہماری تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں کے ساتھ روایات کو بھی سلب کر لیا ہے ۔اگر کسی ملک کی زبان کو چھین لیا جاۓ تو اس کی شناخت ختم ہو جاتی ہے ۔...ہم سب کو اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے اردو زبان کو اس کا مقام دینا ہوگا یعنی اسے دفتری زبان بنانا ہوگا تاکہ
پاکستان قوم بھی ترقی یافتہ قوم بن سکے۔۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں