نثر اور نظم کی تعریف
نظم اور نثر کی تعریف |
ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔حصہ نثر اور حصہ نظم۔
حصہ نثر:
نثر کی اقسام:
نثر کی چار اقسام ہیں۔
سادہ (عاری)نثر
سلیس(مرجز) نثر
مقفی نثر
مسجع نثر
سادہ نثر:
نثر عاری ہی صحیح معنوں میں ادبی نثر ہے۔اس میں وزن اور قافیہ کی قید نہیں
ہوتی۔
سلیس (مرجز)
سلیس (مرجز) اس نثر شعر کا وزن تو ہوتا ہے لیکن قافیہ نہیں ہوتا۔ آسان نثر کو سلیس نثرکہتے ہیں۔۔خطوط غالب اسکی مثال ہے۔
مقفی نثر:
اس نثر وزن تو نہیں ہوتا لیکن قافیہ کا استعمال ہوتا ہے۔رجب علی بیگ کا" افسانہ اعجائب " اسکی بہترین مثال ہے۔
مسجع:
ایسی نثر جسکے دو جملوں کے سب الفاظ ہم وزن،ہم قافیہ ہونے ساتھ اس میں ردیف بھی استعمال ہوتا ہے۔
نظم کی تعریف۔
نظم کے لغوی معانی ‘پرونے’ کے ہیں۔
شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جو کسی ایک عنوان کے تحت کسی ایک موضوع پر لکھی جاتی ہے۔ نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ بحر اور قافیہ سے پابند بھی ہوتی ہے اور ان قیود سے آزاد بھی۔ اس میں مضامین کی وسعت ہوتی ہے۔ نظم زندگی کے کسی بھی موضوع پر ۔کہی جا سکتی ہے
نظم کی اقسام:
ہیئت کی بنیاد پر اردو نظم کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں
پابند نظم
طویل نظم
معرا نظم
آزاد نظم
نثری نظم
پابند نظم:
پابند نظم غزل کی طرح بحر و قافیہ کی پابند ہوتی ہے۔ ابتدائی دور میں زیادہ تر پابند نظمیں ہی لکھی جاتی تھیں۔
اقبال: مکڑی اور مکھی، پرندہ اور جگنو، مکڑا اور مکھی، ماں کا خواب،لا الہ الا اللہ،
الطاف حسین حالی: مٹی کا دیا، مناجات یہ بیوہ
نظیر اکبر آبادی: آدمی نامہ، روٹیاں
طویل نظم:
مرثیہ،قصیدہ اور مثنوی طویل نظم کی مثالیں ہیں، مثنوی، قصیدے اور مرثیہ سے زیادہ طویل ہوتی ہے اور اس میں اسی ہی وقت میں کئی ساری کہانیاں بیان کی جاتی ہیں مگر چونکہ مرکزی کہانی ایک ہوتی ہے اس لیے مثنوی مختصر کہانیوں کا مجموعہ ہو کر ایک طویل نظم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر،
علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ، ابلیس کی مجلس شوری، ساقی نامہ
حالی:برکھا رت، حب وطن، نشاط امید
علی سردار جعفری: نئی دنیا کو سلام، میرے خواب، بمبئی،
ساحر لدھیانوی: اے شریف انسانو، پرچھائیاں،
معرا نظم:
اس نظم کا ایک عنوان ہوتا ہے۔
معرا نظم کسی مخصوص بحر میں کہی جاتی ہے مگر اس میں قافیہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کو انگریزی میں (blank verse) کہتے ہیں۔
نثری نظم:
نظم کی یہ صنف مکمل آزاد صنف ہے اور اس میں وزن، ردیف اور قافیے کی پابندی نہیں کی جاتی ہے۔ لیکن شعریت کا عنصر ضرور موجود ہوتا اسی لیے اسے نظم کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔
ہر نظم کا ایک مرکزی خیال ہوتا جسے چھوٹی بڑی لائنوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ نظم آج کل بہت مشہور ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں:
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں